میری نابالغ بیٹی کی کوکھ میں بچہ (عزت کے نام پر دو قتل، لیکن قاتل کون؟)
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں گیارہ برس کی تھی اورچھٹی جماعت کی طالبہ تھی۔سمیرا مجھ سے پا نچ چھ برس بڑی تھی۔ہم گا ؤں میں رہا ئش پذ یر تھے۔سمیرا سکول نہ جا تی تھی۔اس نے جو کچھ پڑھا گھر میں ہی پڑھا۔ایک استانی اسے گھر پر آکر پڑھا جا تی تھی۔سمیرا کا گھر ہمارے مکان سے چند قدم کے فا صلے پر تھا۔ دراصل ایک قدامت پسند گھرانے میں اس کا جنم ہوا تھا۔اس کے آباؤاجداد اس علاقے کےمالک اور سرپرست رہے تھے۔یہ جدی پشتی امیر تھے۔اولادوں نے بعد میں جا گیریں فروخت کر کےخود کو ایک علا قے تک محدود کر لیا تھا۔خان کے گھرانے کی خواتین پر دے کی سختی سے پابندی کر تی تھیں۔وہ دہلیز سے با ہر قدم نہیں رکھتی تھیں۔ان کو سکو ل جا نے کی بھی اجازت نہیں تھی۔جبکہ مرد اعلیٰ تعلیم کے لیئے یورپ اور امریکہ جا سکتے تھے۔سمیرا بہت خوب صورت لڑکی تھی۔جب امی جان خان کی بیوی سے ملنے جاتی تو سمیرا مجھ سے بہت خلو ص سے ملتی ، اور والدہ سے کہتی کہ میں اکیلی ہوتی ہوں۔مجھ سے کو ئی با تیں کرنے والا نہیں ہوتا۔آپ فا طمہ کو میرے پاس بھیج دیا کریں۔وہ سولہ ،سترہ برس کی بھولی بھالی لڑکی تھی۔لیکن باتیں گیا رہ برس کی لڑکیوں جیسی کر تی تھی۔میری اس کی دوستی ہو گئی۔امی جان جانتی تھیں کہ سمیرا کوگھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ملے گی۔اس لئیے وہ مجھے اس کے پاس جانے سے منع نہیں کرتی تھیں۔میں سمیراسے اپنے گھر آنے کا تقا ضا بھی نہ کرتی تھی۔ کیونکہ اس کی مجبو ریوں کو سمجھتی تھی۔وہ اکثر مجھ سے سکول کی باتیں سنتی۔اسے سکول جا نے کا بڑاشوق تھا۔سمیرا کی امی میرا بہت خیال رکھتی تھی۔میری امی سے دوستی تھی اور یہ بھی معلوم تھاکہ میں ایک اچھی لڑکی ہوں۔سمیرا کی امی اپنی بیٹی پر کڑی نظر رکھتی تھیں ۔میں جا تی تو خوش ہو جا تی۔مہربا نی سے پیش آتیں اوراپنی بیٹی کو کہتی کہ سمیرا، فا طمہ بی بی کی خوب خاطر تواضع کیا کرو۔یہ اکلوتی تمہاری سہیلی ہے۔سمیرا مجھ کو سہیلی ہی سمجھتی حالانکہ ہماری عمروں کا فرق تھا۔وہ مجھ سے دل کی باتیں کہتی اسے میرا انتظار رہتا۔چھٹی کے دن میں ضرور اس کے گھر جاتی کسی وجہ سے نہ جا پا تی تو وہ اپنی ملازمہ بھیج کر بلوا لیتی۔ایک روز میں اس سے ملنے گئی تو سمیرا بے حد خوش تھی۔اس نے مجھ سے کہا کہ فا طمہ جا نتی ہو کہ آج میں کیوں خوش ہوں۔ہما رے چھوٹے چچا شہر سے ہمیں لینے آ رہے ہیں۔وہاں ان کے بیٹے کی شا دی ہے۔میں پہلی بار شہر دیکھوں گی۔سو چو! کتنی خوشی کی بات ہے۔واقعی یہ اس کے لیئے خوشی کی بات تھی۔ایک انہونی سی بات کہ وہ پہلی بار گھر کی چار دیواری سے با ہر جا رہی تھی۔وہ بھی کسی بڑے شہر میں۔اس کے چچا نے لندن میں پڑھا تھا۔وہ تعلیم حاصل کر کے لو ٹے تو کچھ روشن خیال ہو گئے اورگاؤں کی بجا ئے شہر جا بسنے کو تر جیح دی۔دراصل ان کی دوسری بیوی ایک شہری عورت تھی۔اور یہ شادی چچا نے اپنی مر ضی اور پسند سے کی تھی۔جبکہ پہلی بیوی گا ؤں میں رہتی تھی۔پہلی بیوی سے دو لڑکیاں اور دو بیٹے تھے۔یہ بچے بھی ماں کے سا تھ رہا ئش پذیر تھے۔قصہِ مختصر اگلے روز سمیرا اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ شہر چلی گئی۔اس کے ساتھ بڑی چچی ،ان کی بیٹیاں اور چچا گئے تھے۔جبکہ سمیرا کی ماں نے شا دی میں شرکت نہیں کی تھی وہ اپنےہی گھر میں رہ گئی تھیں۔چند روز کے بعد سمیرا واپس شہر سے آگئی تھی۔جب آئی تو بہت خوش تھی۔شہر میں اپنے چچا کے گھر کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی تھی۔اپنے چچا زاد کی شادی کی تفصیل بتا نا چا ہتی تھی لیکن میرے سا لانہ پرچے ہو رہے تھے۔ لہذا میں تھوڑی دیر بیٹھ کے واپس آگئی۔پرچوں کے بعد جب دوبا رہ آؤنگی تو ساری تفصیل سنوں گی۔امتحان کی مصروفیات کے سبب میں دوبارہ جلد نہ جا سکی۔ایک روز اس کی ملازمہ ہمارے گھر آئی۔اسے اس کی امی نے میری امی کے پاس بھیجا تھا۔امی کو بلوایا تھا۔امی ان کے گھر گئیں۔تو سمیرا کی والدہ کو سخت پریشان پا یا۔کہنے لگیں شمع بہن! میری بچی سے کچھ غلطی ہو گئی ہے۔وہاں شہری ماحول کھلا ڈھلا تھاشادی میں رشتہ دار بھی کا فی آئے ہوئےتھے۔اور یہ گاؤں سے گئی تھی۔پتہ نہیں کیا واقعہ ہواکہ اب ہماری عزت پربنی ہے مگر یہ کچھ بتاتی نہیں ۔امی نے پیار سے سمیرا کو کریدنا چاہا۔لیکن لڑکی نے زبان نہ کھولی۔انہوں نے سمیرا کی امی سے کہا کہ تم ماں ہو جب تم کو نہیں بتا تی مجھے کیسے بتائے گی۔تم دوبارہ پیار سے اعتماد میں لو۔یہ بہت خوف زدہ ہےجوں جوں وقت گزرا جارہا تھا۔پریشانی بڑھتی جا رہی تھی اور سمیرا کی امی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ کیا کریں!امی جان کے سوا ان کا کوئی راز دار نہ تھا۔زیادہ پریشان ہوتی تو میری والدہ کو بلواتی کہ اب بتاؤکہ میں کیا کروں!!وقت گزرتا جارہا ہے۔ایسا نہ ہو کہ پانی پلو سے گزر جائے۔صد شکر کہ ان دنوں ان کا شوہردوسرے ملک گیا ہوا تھا۔ورنہ ضرور قیا مت آجاتی سمیرا کی ماں کا کہنا تھا کہ بی بی!بیٹی کی غلطی کے بارے میں اس کے باپ کوبھنک بھی پڑ گئی تو وہ ہم کو زندہ نہ چھو ڑے گا۔اس کی آمد سے قبل ہی اس مسلے کا حل نکالنا ہوگا۔بہن تم میری راز دار ہو۔اب تم ہی کوئی حل بتاؤ۔میں بیٹی کوگھر سے باہر نہیں لے کے جا سکتی۔اس معا ملے کو گھر کی چار دیواری میں ہی دفن کر ناہے۔ یہ ہماری غیرت کا سوال ہے۔بہت سو چنے پر میری ماں کو ایک حل سو جھ گیا۔ہماری نانی ماں جہاں رہائش پذیر تھیں۔وہ جگہ زیادہ دور نہ تھی۔ان کے گھر کے سامنے ایک نرس عرصے سے رہتی تھی (جاری ہے)