ایران بمقابلہ اسرائیل: کون کتنا طاقتور ہے؟

ایران بمقابلہ اسرائیل: کون کتنا طاقتور ہے؟

اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر 200 جنگی جہازوں کے ذریعے 100 سے زائد مقامات پر حملہ کرکے نئی جنگ چھیڑ دی۔—فوٹو: اے ایف پی

اسرائیلی حملوں میں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور 6 جوہری سائنسدان بھی شہید ہوئے۔

اسرائیل نے حملوں کے ذریعے ایران کے جوہری اور عسکری مراکز کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جبکہ ایرانی میڈیا کے مطابق حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت 5 شہری شہید اور 50 زخمی بھی ہوئے ہیں۔

دونوں ممالک میں جنگ چھڑنے کے بعد زیادہ تر افراد کے ذہنوں میں سوال آتا ہے کہ دونوں روایتی حریف ممالک میں سے کس کے پاس زیادہ عسکری طاقت ہے اور کون سا ملک اپنے دفاع میں زیادہ مضبوط ہے۔

اس سوال کا درست جواب کسی کے پاس بھی نہیں، تاہم دونوں ممالک کے پاس عسکری، جوہری طاقت سمیت دونوں کے بجٹ اور دونوں ممالک کے پاس موجود جنگی آلات اور افواج کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون کتنا طاقتور ہے؟

ایران بمقابلہ اسرائیل: افواج کا تقابلی جائزہ

برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (IISS) کی ”دی ملٹری بیلنس 2023“ رپورٹ اور دیگر معتبر ذرائع کے مطابق ایران اور اسرائیل کی فوجی طاقت کا تقابلی جائزہ پیش ہے۔

دونوں ممالک کے فوجیوں کی تعداد

عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق مختلف یورپی ممالک اور اداروں کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے پاس 610,000 فعال فوجی اہلکار ہیں، جن میں 350,000 فوج میں، 190,000 پاسدارانِ انقلاب میں، 18,000 بحریہ میں، 37,000 فضائیہ میں اور 15,000 ایئر ڈیفنس میں شامل ہیں۔

\

اس کے علاوہ ایران کے پاس 350,000 کی ریزرو فوج بھی ہے، یعنی مذکورہ اہلکار متحرک فوج کا حصہ نہیں لیکن ضرورت پڑنے پر انہیں کبھی بھی بلایا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ایران میں 18 سال اور اس سے زائد عمر کے ایرانی مردوں کے لیے کچھ معافیوں کے ساتھ فوجی خدمات لازمی ہوتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس 169,500 فعال فوجی اہلکار ہیں، جن میں سے 126,000 فوج میں، 9,500 بحریہ میں اور 34,000 فضائیہ میں شامل ہیں۔

اسرائیل کے پاس 465,000 کی ریزرو فوج ہے اوراسرائیل میں بھی 18 سال سے زائد عمر کے بیشتر نوجوان مرد اور خواتین کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں، تاہم وہاں بھی بعض معاملات پر کچھ افراد کو چھوٹ حاصل ہے۔

دفاعی بجٹ یا فوجی اخراجات

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی اپریل 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے 2023 میں 10.3 بلین ڈالر خرچ کیے، جو 2022 کے مقابلے میں 0.6 فیصد زیادہ تھے۔

اسی طرح اسرائیل نے 2023 میں 27.5 بلین ڈالر خرچ کیے، جو 2022 کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ تھے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطین پر اسرائیلی حملے ہیں۔

جنگی آلات

الجریزہ کے مطابق دی ملٹری بیلنس 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ایران کے پاس کم از کم 10,513 جنگی ٹینک، 6,798 توپیں اور 640 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں ہیں۔ فوج کے پاس 50 ہیلی کاپٹر جبکہ پاسدارانِ انقلاب کے پاس پانچ ہیلی کاپٹر ہیں۔

اسی طرح اسرائیل کے پاس تقریباً 400 جنگی ٹینک، 530 توپیں اور 1,190 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں ہیں۔

فضائیہ

دی ملٹری بیلنس 2023 کے مطابق ایرانی فضائیہ کے پاس 312 جنگی طیارے ہیں، اور پاسدارانِ انقلاب کے پاس مزید 23 طیارے ہیں۔

فضائیہ کے پاس دو حملہ آور ہیلی کاپٹر، فوج کے پاس 50 اور پاسدارانِ انقلاب کے پاس پانچ ہیں۔

اسی طرح اسرائیلی فضائیہ کے پاس 345 جنگی طیارے اور 43 حملہ آور ہیلی کاپٹر ہیں۔

بحریہ

دی ملٹری بیلنس 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ایران کے پاس 17 ٹیکٹیکل آبدوزیں، 68 گشتی اور ساحلی جنگی جہاز، سات کارویٹ، 12 لینڈنگ بحری جہاز، 11 لینڈنگ کرافٹ، اور 18 لاجسٹک اور سپورٹ گاڑیاں ہیں۔

اسی طرح اسرائیل کے پاس پانچ آبدوزیں اور 49 گشتی اور ساحلی جنگی جہاز ہیں۔

فضائی دفاعی نظام (ائیر ڈیفنس سسٹم)

اسرائیل کا فضائی دفاع آئرن ڈوم سسٹم پر انحصار کرتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے متعدد بار ایران کے بیشتر میزائلوں کو روکا۔

یہ نظام ایک ریڈار سے لیس ہے جو آنے والے میزائل کا پتہ لگاتا ہے اور اس کی رفتار اور سمت کا تعین کرتا ہے، اس کے بعد کنٹرول سینٹر یہ حساب لگاتا ہے کہ آیا میزائل اسرائیلی شہروں کے لیے خطرہ ہے یا نہیں۔ جو میزائل خطرہ نہیں ہوتے، انہیں خالی میدانوں میں گرنے دیا جاتا ہے، اگر خطرہ ہو تو، میزائل فائرنگ یونٹ اسے مار گرانے کے لیے میزائل داغتا ہے۔

اسرائیل بھر میں 10 آئرن ڈوم بیٹریاں نصب ہیں، دیگر نظام درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روکتے ہیں۔

ڈیوڈ سلنگ 40 سے 300 کلومیٹر تک کے میزائلوں کو روکتا ہے، جبکہ ایرو سسٹم 2,400 کلومیٹر تک کی رینج والے میزائلوں کو روک سکتا ہے۔

ایرانی دفاع نظام

اسی طرح فروری 2025 میں ایران نے کم فاصلے اور کم اونچائی والے آذرخش (فارسی میں ”بجلی“) دفاع سسٹم کو تعینات کیا تھا۔

یہ ایک انفراریڈ ڈیٹیکشن سسٹم ہے جو ریڈار اور الیکٹرو آپٹک سسٹمز سے لیس ہے تاکہ اہداف کا پتہ لگا کر انہیں روکا جا سکے، اسے گاڑیوں پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔

ایران کے پاس مختلف قسم کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل دفاعی نظام موجود ہیں، جن میں 42 سے زائد طویل فاصلے تک مار کرنے والے روسی ساختہ S-200، S-300 اور مقامی باور-373 شامل ہیں۔ 59 سے زائد سسٹم درمیانے فاصلے کے امریکی MIM-23 ہاک، HQ-2J اور خرداد-15؛ اور 279 کم فاصلے کے چینی ساختہ CH-SA-4 اور 9K331 Tor-M1 جیسے نظام شامل ہیں۔

بیلسٹک میزائل

امریکی تھنک ٹینک سینٹر فاراسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے میزائل ڈیفنس پروجیکٹ کے مطابق ایران کے پاس کم از کم 12 مختلف قسم کے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔ ان میں تندر 69 (رینج 150 کلومیٹر) سے لے کر خرمشہر اور سجیل (رینج 2,000 کلومیٹر تک) شامل ہیں۔

اسی طرح اسرائیل کے پاس کم از کم چار مختلف قسم کے چھوٹے، درمیانے اور درمیانی رینج کے بیلسٹک میزائل ہیں، جن میں LORA (رینج 280 کلومیٹر) سے لے کر جیریکو-3 (رینج 4,800 سے 6,500 کلومیٹر) شامل ہیں۔

جوہری صلاحیتیں

امریکی ادارے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق، اسرائیل کے پاس اندازاً 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

اسی طرح ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن اس کا جوہری پروگرام جدید ہے اور وہ کئی جوہری تنصیبات اور تحقیقی مراکز چلاتا ہے۔

سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک مذہبی فتوے کے ذریعے ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی عائد کر دی تھی اور کہا تھا کہ یہ اسلام میں حرام ہے۔ تاہم، مئی 2025 میں ایران نے دھمکی دی تھی کہ ”اگر ایران کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا“ تو وہ اپنی جوہری پالیسی تبدیل کر سکتا ہے۔

Matt John

Matt John is a creative person. Matt love Reading, Writing, and exploring the world. He is on a mission to help those people that do not understand the term username and want a good appearance on the internet.

Leave a Reply