کمرے میں ہلکی سی روشنی تھی، گلاب کی خوشبو اور اگربتی کی مہک فضا میں گھلی ہوئی تھی۔ آج اُن کی شادی کی پہلی رات تھی۔
عروہ دلہن کے جوڑے میں بیٹھی تھی، سرخ جوڑے میں اُس کا چہرہ چمک رہا تھا، اور دل عجیب سی بےچینی سے دھڑک رہا تھا۔
دروازہ آہستہ سے کھلا… زوہیب اندر داخل ہوا۔ اُس کی نظریں عروہ پر جمی رہ گئیں، جیسے وہ کچھ بولنا چاہتا ہو مگر لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا ہو۔
وہ آہستہ سے عروہ کے قریب آیا، اور زمین پر گھٹنے ٹیک کر اُس کے ہاتھ تھام لیے۔
“عروہ… آج سے تم میری زندگی ہو، میرا سکون ہو، اور میری ہر صبح کی روشنی ہو۔”
عروہ نے نظریں نیچی کر لیں، مگر دل کی دھڑکن کانوں سے سنائی دے رہی تھی۔ زوہیب نے اُس کے ماتھے پر لب رکھے، اور پھر آہستہ سے اُس کے دوپٹے کو پیچھے کیا۔
“کیا تم ڈر رہی ہو؟” اُس نے نرمی سے پوچھا۔
عروہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔ زوہیب مسکرایا، اُس کے ہاتھ کو چومتے ہوئے بولا:
“محبت میں ڈر نہیں ہوتا، صرف اعتماد ہوتا ہے… اور میں تمہیں وقت دوں گا، اتنا کہ تم خود میرے قریب آؤ۔”
کمرے میں خاموشی چھا گئی… صرف دلوں کی دھڑکنیں تھیں، اور وہ پہلی رات… جو عمر بھر کا وعدہ بن چکی تھی۔